السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب سے درخواست ہے کہ اس موضوع کو بہت غور سے پڑھیں اور سمجھیں ۔ علم غیب پر بہت سے لوگوں کی بحث کرتے ، لڑتے دیکھا ۔ ان میں ہر کوئی قرآن وا احادیث سے دلائل دیتا ہے ۔ عام بندہ الجھ کر رہ جاتا ہے کہ ایک طرف قران و احادیث میں ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے تو دوسری طرف نبی پاک قیٓامت کی نشانیاں، آنے والے وقتوں کی پیشن گوئیاں بھی بتا رہے ہیں ۔ ایسا کیسے ممکن ہے ٓتو آپ سب کو آج علم غیب ہوتا کیا ہے اس بارے میں بتایا جائے گا تاکہ غلط فہمیوں سے ہٹ کر صحیح عقیدہ لوگوں کے علم میں ہو اور وہ بھول بھلیوں میں بھٹکتے نہ پھریں ۔
٭٭٭٭٭٭ علم غیب کیا ہوتا ہے ٭٭٭٭٭
ایسا علم جس کے جاننے میں درمیان میں کوئی واسطہ نہ ہو ۔ کوئی خبر نہ ہو ۔ کوئی ذریعہ نہ ہو ۔ جو بغیر کسی واسطہ سورس کے علم ہوتا ہے اس کو علم غیب بولتے ہیں جو کہ صرف اور صرف اللہ کا خاصہ ہے۔
اب سب سے بڑی سمجھنے والی بات یہ ہے کہ نبی کو وحی سے ہر بات اللہ کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور اسکو خبر بولتے ہیں ۔ ہر نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ اللہ پاک ان کو وحی سے بتاتے ہیں ۔ جو چیز وحی سے بتا دی جائے اس کو غیب کی خبر بولتے ہیں ۔ غیب پر اطلاع کیا جانا بولتے ہیں لیکن اس کو علم غیب نہیں بولتے ہیں ۔ کیونکہ بیچ میں وحی کا سورس واسطہ آ گیا ۔ اسی طرح جو جو نبی بتاتے ہیں چاہے آنے والے وقت کے بارے میں ، چاہے قیامت کے بارے میں ۔ یہ سب اللہ پاک وحی سے نبی کو خبر کرتے ہیں نہ کہ نبی بغیر وحی کے اپنی طرف سے ۔ اللہ پاک یہ علم کسی کو عطا نہیں کرتے بلکہ مطلع کرتے ہیں
جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے ۔
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 3
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)
مراد غیب کی باتیں وحی سے نبی یا رسول کو اطلاع کی جاتی ہیں نہ کہ غیب کا علم اللہ پاک نبی کو عطا فرماتے ہیں ۔ کیونکہ غیب کے علم میں کسی چیز وحی یا خبر کا واسطہ نہیں ہوتا جو کہ صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے کسی مخلوق کا نہیں ۔
مزید اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 72
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)
آپ سب دیئکھ سکتے ہیں کہ اللہ پاک مطلع کرنے کا بتا رہے ہیں نہ کہ علم غیب عطا کرنے کا ۔ مطلع کا مطلب اس چیز پر اطلاع کیا جانامزید اس کو سمجھنے کے لئے اللہ پاک کا فرمان دیکھیں کہایک اور جگہ اللہ پاک فرماتے ہیں ۔یہ نبی غیب کی خبریں بتانے میں بخیل نہیں۔ (التکویر 24)غیب کی خبریں نبی کو کون دیتا ہے ؟؟؟؟؟ اللہ تعالی ۔۔ کیسے دیتا ہے وحی سے ۔۔ جب وحی بیچ میں آ گئی تو یہ علم غیب نہ رہا اللہ کی طرف سے خبر کہلایا ۔
نبی کو اللہ تعالیٰ، اپنی ذات، فرشتوں، جنت و دوزخ کے غیب کی خبر دیں تو وہ علم غیب یا اطلاع عن الغیب کہلائے۔ اور نبی کے ذریعے سے یہ خبریں ساری امت تک پہنچ جائیں تو امت کو کیوں علم الغیب یا اطلاع عن الغیب نہیں کہا جاتا؟
ان شاء اللہ اگر آپ نے غور سے پڑھ لیا ہے ایک بار تعصب کی پٹی ہٹا کر تو علم غیب اور علم غیب کی خبر میں فرق کو سمجھ جائیں گے اور گواہی دیں گے کہ علم غیب صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ اپنے نبیوں وا رسولوں میں سے جسے منتخب کر لیتا ہے اسے غیب کی خبریں بتا دیتا ہے ۔ جتنا اللہ چاہتا ہے اتنا بتا دیتا ہے ۔۔
اب سب کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ ایک طرف اللہ کیوں فرماتے ہیں کہ غیب کا علم صرف میرے پاس ہے اور دوسری طرف نبی وا رسول نشانیاں ۔ جنت دوزخ ۔ آگے والے حالات واقعات کیسے بتا دیتے ہیں
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سب بھائیوں کو سمجھنے کی توفیق دیں –
آمین.. ثمہ آمین…
فرمانِ باری ہے:
”اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرو اور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔” سورة النساء: