ام المومینین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ کر لیا کہ کوئی بات درپیش ہے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور کسی سے کوئی بات نہیں کی، منبر پر بیٹھے اور اللہ تعالٰی کی حمد کے بعد فرمایا-
” اے لوگو ! اللہ تعالٰی تمہارے لیے فرماتا ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور میں تمہاری دعا قبول نہ کروں، اور تم مجھ سے مانگو می تمہیں نہ دوں اور مجھ سے مدد طلب کرو اور میں تمہاری مدد نہ کروں-“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ اور کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی اور منبر سے اتر آئے-
کیا واقعی ایسا ہو گا کہ لوگ اللہ تعالٰی کو پکاریں اوراللہ تعالٰی ان کی پکار سننے سے انکار کر دیں وہ اللہ جو فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر چیز سے زیادہ وسیع ہے، جو فرماتا ہے
” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بندے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھےپکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں-” ( البقرہ 186 )
… اللہ تعالٰی نے باالکل سچ فرمایا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی-
یہ ایسا سچ ہے جسے سن کر دلوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتےہیں- آخر جب رحمت الہی کے دروازے ہی بند ہو جائیں گے تب لوگوں کے لیے کیا باقی رہ جائے گا- اور اس وسیع و عریض کائنات میں پھر انہیں کہاں پناہ مل سکے گی- اس دروازے کے بند ہونے کے ساتھ ہی وہ باالکل بے یارومدد گار ہو جائیں گے-
شروع سے آج تک انسان نے جو علم حاصل کیا ہے جتنی ایجادات کی ہیں جتنے نتائج حاصل کیے ہیں جتنی سہولتیں حاصل کی ہیں اگر دنیا کا سارا کاروبار ایک ٹھوس سنت الہی کے مطابق نہ چل رہا ہوتا تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا-
یہی اس وسیع وعریض کائنات میں انسانی زندگی کا حال ہے انسانی تجربات کی بنیاد پر قائم تمام سیاسی ، اقتصادی ، اجتماعی اور آبادیاتی نظام قائم ہی نہیں ہوسکتے تھے اگر سنت الہی کا قانون جاری وساری نہ ہوتا- یہی سنت الہی کسی تجربہ کو موثر اور نتیجہ خیز بناتی ہے-
اس لیے یہ انسانوں پر اللہ تعالٰی کی ہی رحمت ہے کہ اس نے اپنی سنت کو مستقل بنایا اور اسے باالکل واضح و روشن کر دیا تاکہ اس طرح انسانی دل و دماغ اسے سمجھ سکیں-
قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں-
” تم سے پہلے بھی بہت سے دور گزر چکے ہیں زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے ( اللہ کے احکام و ہدایات کو ) جھٹلایا- یہ لوگوں کے لیے صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہیں ( ان کے لیے ہدایت اور نصیحت )” ( ال عمران 127،128 )
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی ( الرعد 11 )
انسان پر اللہ تعالٰی کا شکر واجب ہوتا ہے کہ اسے روئے زمین پر یہ قیمت و اہمیت بخشی – اگر اللہ تعالٰی کی یہ مہربانی نہ ہوتی اور اللہ تعالٰی اس میں روح نہ پھونکتے تو وہ بذات خود کیا بن سکتا تھا- کیا وہ اس مٹی کا حصہ نہیں جس سے دیگر جاندار بنے ہیں اور کوئی دقعت نہیں رکھتے- قرآن میں ہے کہ
” اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں ( کی ہدایت و اصلاح ) کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو -” ( ال عمران 110